Sunday, April 1, 2012

Jab Zindagi shuru ho gi...


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

اچانک لوگوں کے درمیان ایک عجیب ہلچل مچ گئی۔ لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ مجمع چھٹا تو دیکھا کہ ایک آدمی کے پیچھے دو فرشتے دوڑ رہے ہیں۔ یہ ویسے ہی فرشتے تھے جیسے عرش کے سائے کی طرف جاتے ہوئے ہمیں نظر آئے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا تھا اور دوسرے کے ہاتھ میں ایسا کوڑا تھا جس میں کیلیں نکلی ہوئی تھیں۔

وہ آدمی ان سے بچنے کے لیے سر توڑ کوشش کررہا تھا، مگر یہ فرشتے اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ صاف نظر آرہا تھاکہ فرشتے جان بوجھ کر اسے تھکارہے ہیں۔ وہ اس کے قریب پہنچ کر اسے ایک کوڑا مارتے اور کہتے جارہے تھے کہ اے حکمران اٹھ اور اپنی مملکت میں چل۔ کوڑا پڑتے ہی وہ شخص چیختا چلاتا گرتا پڑتا بھاگنے لگتا۔ پھر وہ فرشتے اس کے پیچھے دوڑنے لگتے۔

مجھے ان موصوف کا تعارف حاصل کرنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ صالح نے خود ہی بتادیا:

''یہ تمھارے ملک کے سربراہ مملکت ہیں۔''

کچھ ہی دیر میں سربراہ مملکت آگ اور کیلوں والے کوڑے کھاکر زمین بوس ہوچکے تھے۔ جس کے بعد فرشتوں نے انہیں ایک لمبی زنجیر میں باندھنا شروع کیا جس کی کڑیاں آگ میں دہکا کر سرخ کی گئی تھیں۔ سربراہ مملکت بے بسی سے تڑپ رہے اور رحم کی فریاد کررہے تھے، مگر ان فرشتوں کو کیا معلوم تھا کہ رحم کیا ہوتا ہے۔ وہ بے دردی سے انہیں باندھتے رہے۔ جب ان کا پورا جسم زنجیروں سے جکڑ گیا تو اتنے میں کچھ اور فرشتے آگئے۔ پہلے فرشتے ان سے بولے:

''ہم نے سربراہ مملکت کو پکڑ لیا ہے۔ تم جاؤ اور ان کے سارے حواریوں، درباریوں، خوشامدیوں اور ساتھیوں کو پکڑلاؤ جو اس بدبخت کے ظلم اور بدعنوانی میں شریک تھے۔''

چنانچہ مجمع میں بڑے پیمانے پر وہی ہلچل، بھاگ دوڑ اور مار پیٹ شروع ہوگئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک گروہ کثیر جس میں وزرا، امرا،مشیر، بیوروکریٹ، وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار اور ہر طرح کے ظالم جمع تھے، گرفتار ہوگیا۔ اس کے بعد ان فرشتوں نے سب کو سر کے بالوں سے پکڑ کر چہرے کے بل گھسیٹنا شروع کردیا۔ وہ ہمارے قریب سے گزرے تو ان کی کھالوں کے جلنے کی بدبو ہر طرف فضا میں بکھری ہوئی محسوس ہوئی۔ اس بدبو کا احساس ہوتے ہی صالح نے میری کمر پر ہاتھ رکھا تو میری جان میں جان آئی۔ وہ ان کو ہمارے سامنے سے کھینچتے ہوئے مزید بائیں جانب لے گئے۔ میں ان کے گھسیٹے جانے کے سبب زمین پر بن جانے والی لکیروں اور ان پر پڑے خون کے دھبوں کو دیکھتا رہا جو ان کے جسموں سے رس رہا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر بے اختیار میرے لبوں سے ایک آہ نکلی۔ میں نے دل میں سوچا:

''کہاں گیا ان کا اقتدار؟ کہاں گئے وہ عیش و عشرت کے دن؟ کہاں گئے وہ عالیشان محل، مہنگے ترین کپڑے، بیرونی دورے، شاندار گاڑیاں، عظمت ، کروفر اور شان و شوکت؟ آہ! ان لوگوں نے کتنے معمولی اور عارضی مزوں کے لیے کیسا برا انجام چن لیا۔''

صالح بولا:

''یہ سب ظالم، کرپٹ اور عیاش لوگ تھے جن کی ہلاکت کا فیصلہ دنیا ہی میں ہوچکا تھا۔ تاہم یہ ان کی اصل سزا نہیں۔ اصل سزا تو جہنم میں ملے گی۔ جس طرف فرشتے انہیںلے جارہے ہیں وہاں سے جہنم بالکل قریب ہے۔ اسی مقام سے انہیں حساب کتاب کے لیے لے جایا جائے گا جہاں ان کی دائمی ذلت اور عذاب کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ پھر انھیں دوبارہ بائیں طرف لایا جائے گا۔ جہاں سے گروہ در گروہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔''
(جب زندگی شروع ہو گی) = (عبداللہ : ایک نیک آدمی)، (صالح : عبداللہ کا نیکیاں لکھنے والا فرشتہ)

No comments:

Post a Comment