All about Pakistan,Islam,Quran and Hadith,Urdu Poetry,Cricket News,Sports News,Urdu Columns,International News,Pakistan News,Islamic Byan,Video clips
Friday, September 28, 2012
Dare nabi (s.a.w) par para rahoon ga pare hi rehne se kaam hoga
Thursday, September 27, 2012
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Eeman
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Eeman
میرے ایک استاد اونگارتی تھے - مین نے ان سے پوچھا کہ سر " ایمان کیا ہوتا ہے " ؟
انہوں نے جواب دیا کہ ایمان خدا کے کہے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے - یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی
-اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا
شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پر کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا - اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا چھلانگ مار بیٹا
-"اس لڑکے نے کہا کہ " بابا کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے
(اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی )
اس کے باپ نے کہا کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار ، تیرا باپ تیرے نیچے ہے ، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں ناں
-"اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے - میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں نا
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین
اشفاق احمد زاویہ 3 شہ رگ کا ڈرائنگ روم صفحہ 198
Daily Quran and Hadith
Wednesday, September 26, 2012
Peer-e-Kamil : Ahsaan
اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی مخلوق کا احسان بھی یاد رکھنے کی عادت نہیں سیکھ سکتے
"پیر کامل" : عمیرہ احمد
Peer-e-Kamil : Ahsaan
شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روز بروز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے ۔ جو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی ۔اگر ہمیں الله کا شکر ادا کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی
اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی مخلوق کا احسان بھی یاد رکھنے کی عادت نہیں سیکھ سکتے
"پیر کامل" : عمیرہ احمد
Daily Quran And Hadith
Tuesday, September 25, 2012
Ashfaq Ahmad In Zavia Program, Bandagi..
Ashfaq Ahmad In Zavia Program, Bandagi..
بندگی کی شرط یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کا ہو جائے - پھر اللہ تعالیٰ بندے کا ہو جاتا ہے - جس کی بندگی کرنا چاہتا ہے اس کا بندہ ہو جائے تو بندگی ہے ورنہ نیک عادت ہے - نیک عادت کو خطرہ ہر مقام پر موجود رہتا ہے - جس طرح بکرہ حلال ہے- تکبیر ہو جائے تو طیب ہوجاتا ہے - جھٹکا ہو جائے تو ناپاک ہو جاتا ہے - ۔
Monday, September 24, 2012
Daily Quran And Hadith
Sunday, September 23, 2012
Yad Rakhain...
Ashfaq Ahmad In Baba Sahba..
Ashfaq Ahmad In Baba Sahba..
بندگی کی شرط یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کا ہو جائے - پھر اللہ تعالیٰ بندے کا ہو جاتا ہے - جس کی بندگی کرنا چاہتا ہے اس کا بندہ ہو جائے تو بندگی ہے ورنہ نیک عادت ہے - نیک عادت کو خطرہ ہر مقام پر موجود رہتا ہے - جس طرح بکرہ حلال ہے- تکبیر ہو جائے تو طیب ہوجاتا ہے - جھٹکا ہو جائے تو ناپاک ہو جاتا ہے - ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 633
Ashfaq Ahmad In Zavia Program
Ashfaq Ahmad In Zavia Program
عزیزو ! میری بات ذرا دھیان سے سننا اور اس پر غور کرنا کہ معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ افراد کی حاصل ضرب کا نام ہے - یہ ہمارے ذاتی تعلقات کے پھیلاؤ کا نام ہے - جو کچھ ایک فرد واحد پر وارد ہوتا ہے وہ ہماری ساری سوسائٹی میں پھیل جاتا ہے - جنگوں کے اسباب اور معاشروں کے انحطاط کی وجہ افراد کے ذھنوں میں مقید ہوتی ہے - اگر ہمیں معاشرے کو تبدیل کرنا ہے تو ہمیں فرد کو تبدیل کرنا ہوگا - اگر ہمیں معاشرے کو بہتر بنانا مقصود ہے تو پھر فرد کو ایک نئی زندگی عطا کرنی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 حقیقت اور ملا سائنسدان صفحہ 250
Daily Quran and Hadith
Saturday, September 22, 2012
Namaz Perhni Zaroori Hay ?
Namaz Perhni Zaroori Hay ?
"میڈم مجھے ایک بات پوچھنا ہے؟"
"جی ضرور پوچھئے."
وہ میم۔ مجھ سے نماز پڑھی نہیں جاتی' تو خیر ہے؟"
"ہاں کیوں نہیں خیر ہے۔ اٹس اوکے' اگر آپ نہیں پڑھ سکتیں تو۔"
محمل کو لگا' منوں بوجھ اس کے کاندھوں سے اتر گیا ہو. وہ ایک دم کسی قید سے آزاد ہوئی تھی۔
"وہی تو میم! میں باقی نیکیاں کر لوں' قرآن پڑھ لوں' ٹھیک ہے نا' نماز پڑھنا بہت ضروری تو نہیں ہے؟"
"نہیں، اتنا ضروری تو نہیں ہے. اگر آپ نہیں پڑھنا چاہتیں تو نہ پڑھیں."
"میم! کوئی فرق تو نہیں پڑے گا نا ؟"
"قطعا فرق نہیں پڑے گا. یہ بلکل آپ کی اپنی مرضی پہ ہے۔"
"اوہ…..اوکے۔" وہ بے حد آسودہ سی مسکرائی۔ مگر میڈم مصباح کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
"یقین کریں محمل! کوئی فرق نہیں پڑے گا اسے۔
آپ بیشک نماز نہ پڑھیں' بے شک سجدہ نہ کریں۔
جو ہستیاں اس کے پاس ہیں' وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتیں۔ اگر آپ کر لیں، اسے کیا فرق پڑے گا'
اس آسمان کا بالشت بھر بھی حصہ خالی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدہ نہ کر رہا ہو۔ اور فرشتہ جانتی ہیں' کتنا بڑا ہو سکتا ہے؟ جب اس پہاڑی پر رسول صلی الله علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کے پکارنے پہ پلٹ کر دیکھا تھا' تو جبرائیل علیہ السلام کا قد زمین سے آسمان تک تھا۔ اور ان کے پیچھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آسمان نظر نہیں آرہا تھا. ایسے ہوتے ہیں فرشتے۔ 70 ہزار فرشتے کعبہ کا طواف کرتے ہیں' یہ تعداد عام سی لگتی ہے۔ مگر جانتی ہو' یہ جو 70 ہزار فرشتے روز طواف کرتے ہیں' ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آئے گی۔ اس رب کے پاس اتنی لاتعداد ہستیاں ہیں عبادت کرنے کے لئے' آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو اسے کیا فرق پڑے گا؟"
میڈم مصباح جا چکی تھیں اور وہ دھواں دھواں چہرے کے ساتھ کتابیں سینے سے لگائے ساکت سی کھڑی تھی. اس کو لگا' وہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑ سکے گی۔
(اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "مصحف" سے)
Friday, September 21, 2012
Thursday, September 20, 2012
Daily Quran and Hadith
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Muhabat Ki Haqeeqat
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Muhabat Ki Haqeeqat
محبت آزادی ہے۔ مکمل آزادی۔ حتٰی کہ محبت کے پھندے بھی آزادی ہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو محبت کی ڈوری سے باندھ کر محبت کا اسیر ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں آزادی کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو۔ محبت تلاش نہ کرو۔۔۔۔ آزادی کی تلاش بیسیوں مرتبہ انسان کو انا کے ساتھ باندھ کر اسے نفس کے بندی خانے میں ڈال دیتی ہے۔ محبت کا پہلا قدم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب وجود کے اندر سے انا کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ محبت کی تلاش انا کی موت ہے۔ انا کی موت مکمل آزادی ہے۔
زاویہ سوئم سے اقتباس
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Khushi Ka Raaz
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Khushi Ka Raaz
ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میںایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماںنے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں آگیا ہوں۔
میں نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوںہو رہی ہے؟ اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوںکڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔
میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماںکا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے، جو خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال دیتی ہے۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچھ بھی ایسا نہیں تھا، لیکن وہ ایک ماں تھی۔ میں جب نو سال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہو جاؤں اور کھیل پیش کروں، کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھا۔ تیرہ، چودہ، پندرہ جنوری کو اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے۔ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملا، جس سے میں بہت متأثر ہوا۔ جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سرکس میںاپنے کمالات دکھاؤں گا، تو میری نانی "پھا" کر کے ہنسی اور کہنے لگیں، ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں کام کرے گا۔ میری ماں نے بھی کہا، دفع کر تو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا۔ تو نے سرکس میںبھرتی ہو کر کیا کرنا ہے۔ اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا۔ وہی ماںجس نے مجھے اتنی محبت سے اس بادوباراں کے طوفان میں امان اور آسائش عطا کی تھی۔ وہ میری خواہش کی مخالفت کر رہی تھی۔
میرے والد سن رہے تھے۔ انہوںنے کہا کہ نہیں، کیوں نہیں؟ اگر اس کی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے۔ تب میں بہت خوش ہوا۔ اب ایک میری ماںکی مہربانی تھی۔ ایک والد کی اپنی طرف کی مہربانی۔ انہوںنے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی، بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول والا، اس کو لال، نیلا اور پیلا پینٹ کر کے بھی لے آئے اور کہنے لگے، اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں۔ اس پر آپ کھیل کریں گے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے۔ میں نے کہا منظور ہے۔
چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا۔ میں نے اس پر اس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا۔ گول چکر کاٹ سکتا تھا۔ بغیر پیچھے دیکھے ہوئے، آگے پیچھے آجا سکتا تھا۔ پھر میں نے اس ڈرم پر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں اچھالنے کی پریکٹس کی۔ وہاں میرا ایک دوست تھا۔ ترکھانوں کا لڑکا محمد رمضان۔ اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کر لیا۔ وہ اچھے چھریرے بدن کا تھا۔ وہ مجھے سے بھی بہتر کام کرنے لگا۔ بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لے کر ہوا میں اچھال سکتا تھا۔ ہم دونوںڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے۔ ایک ہماری بکری تھی، اس کو بھی میںنے ٹرینڈ کیا۔ وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی۔
ہماری ایک "بُشی" نامی کتا تھا، وہ لمبے بالوں والا روسی نسل کا تھا۔ اس کو ہم نے کافی سکھایا، لیکن وہ نہ سیکھ سکا۔ وہ یہ کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا تھا۔ حالانکہ کتا کافی ذہین ہوتا ہے۔ وہ بھونکتا ہوا ہمارے ڈرم کے ساتھ ساتھ بھاگتا تھا، مگر اوپر چڑھنے سے ڈرتا تھا۔ ہم نے اعلان کر دیا کہ یہ کتا ہماری سرکس ہی کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ جوکر کتا ہے اور یہ کوئی کھیل نہیں کرسکتا، صرف جوکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
خیر! ہم یہ کھیل دکھاتے رہے۔ ہم اپنا شو کرتے تومیرے ابا جی ہمیشہ ایک روپیہ والا ٹکٹ لے کر کرسی ڈال کر ہماری سرکس دیکھنے بیٹھ جاتے تھے۔ ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا اُور کوئی بھی دیکھنے نہیں آتا تھا۔ صرف ابا جی ہی آتے تھے۔ ہم انہیں کہتے کہ آج جمعرات ہے۔ آپ سرکس دیکھنے آئیے گا۔ وہ کہتے، میں آؤں گا۔ وہ ہم سے ایک روپے کا ٹکٹ بھی لیتے تھے، جو ان کی شفقت کا ایک انداز تھا۔
زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے اور آپ اس بات کو مائنڈ نہ کیجئے گا۔ اگر آپ کو روحانیت کی طرف جانے کا بہت شوق ہے تو اس بات کو برا نہ سمجھئے گا کہ بعض اوقات ماںباپ کے اثرات اس طرح سے اولاد میں منتقل نہیں ہوتے، جس طرح سے انسان آرزو کرتا ہے۔اس پر کسی کا زور بھی نہیں ہوتا۔ ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا، بڑا ذہین لڑکا اور خیر و شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگرز کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میرا باپ جس نے مجھے ڈرم لا کر دیا تھا، میں اسی کا بیٹا ہوں اور اب میں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہیں کرتا۔ دیکھئے یہاںکیا تضاد پیدا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساتھ ڈانٹا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو، تمھیں شرم آنی چاہئے کہ یہ قالین ہے، برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہوں۔
اس نے کہا، دادا آئی ایم ویری سوری!! میں جلدی میں ہوتا ہوں، جوگر اتارنے مشکل ہوتے ہیں۔ امی مجھے بلا رہی ہوتی ہیں کہ have a cup of tea، تو میں جلدی میںایسے ہی اندر آجاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، چنانچہ میںاس پر کمنٹس کرتا رہا۔ ٹھیک ہے مجھے ایک لحاظ سے حق تو تھا، لیکن جب یہ واقعہ گزر گیا تو میںنے ایک چھوٹے سے عام سے رسالے میںاقوالٍ زریں وغیرہ میں ایک قول پڑھا کہ" جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میںرہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔" انسان کو خود یہ سوچنا چاہئے کہ جی مجھ میںفلاں تبدیلی آنی چاہئے۔ جی میںسیگرٹ پیتا ہوں، اسے چھوڑنا چاہتا ہوں، یا میں صبح نہیں اٹھ سکتا۔ میںاپنے آپ کو اس حوالے سے تبدیل کر لوں۔ ایک نکتہ چیں میںکبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی ذات کی جو بیٹری ہے، وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بیڑی کے سیل کمزور ہو جائیں، تو ایک بیٹری کا بلب ذرا سا جلتا ہے، پھر بجھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت ایک نکتہ چیںکی ہوتی ہے۔
میںنے وہ قول پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ میری نکتہ چینی اس لڑکے پر ویسی نہیںہے، جیسا کہ میرے باپ کی ہو سکتی تھی۔ میرے باپ نے سرکس سیکھنے کی بات پر مجھے نہیںکہا کہ عقل کی بات کر، تو کیا کہ رہا ہے؟اس نے مجھے یہ کہنے کی بجائے ڈرم لا کر دیا اور میری ماںنے مجھے بادوباراںکے طوفان میںیہ نہیںکہا کہ چپ کر، ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اور میں اس میںکمنٹری کر کے نقص نکال رہا ہوں۔ ابھی میں اس کا کوئی ازالہ نہیںکر سکا تھا کہ اگلے دن میںنے دیکھا میرے پوتےکی ماں (میری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا میٹ لے آئی اور اس کے ساتھ ناریل کے بالوں والا ڈور میٹ بھی لائی، تاکہ اس کے ساتھ پیر گٍھس کے جائے اور اندر کیچڑ نہ جانے پائے۔ سو، یہ فرق تھا مجھ میں اور اس ماںمیں۔ میںنکتہ چینی کرتا رہا اور اس نے حل تلاش کر لیا۔
جب آپ زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور باطن کے سفر کی آرزو کرتے ہیں، تو جب تک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہ کریں گے اور بڑے میدان تک پہنچنے کے لئے پگڈنڈی نہ تیار کریں گے، وہاںنہیں جا سکیںگے۔ آپ ہمیشہ کسی "بابے" کی بابت پوچھتے رہتے ہیں۔ ہمارے باباجی سے فیصل آباد سے آنے والے صاحب نے بھی یہی پوچھا اور کہنے لگے کہ سائیں صاحب! آپ کو تو ماشاء اللہ خداوند تعالٰی نے بڑا درجہ دیا ہے۔ آپ ہم کو کسی "قطب" کے بارے میںبتلا دیں۔ باباجی نے ان کی یہ بات نظر انداز کر دی۔ وہ صاحب پھر کسی قطب وقت کے بارے دریافت کرنے لگے۔ جب انہوں نے تیسری بار یہی پوچھا تو بابا جی نے اس سے کہا کہ کیا تم نے اسے قتل کرنا ہے؟
آدمی کا شاید اس سے یہی مطلب یا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی بابا ملے اور میں اس کی غلطیاں نکالوں۔اگر روحکی دنیا کو ٹٹولنے کا کوئی ایسا ارادہ ہو یا اس دنیا میںکوئی اونچی پکار کرنے کی خواہش ہو کہ "میں آگیا" تو اس کے لئے ایک راستہ متعین ہونا چاہئے، تیاری ہونی چاہئے۔ تبھی انسان وہاں تک جا سکتا ہے۔ ہم ڈائریکٹ کبھی وہاںنہیں جا سکتے۔آپ کو اس دنیا کے اندر کوئی پیرا شوٹ لے کر نہیں جائے گا۔ جب یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہونگی، تو جا کر کہیں بات بنے گی۔
میرے بھائی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرنا ہے تو میرے پاس آکر مہینے دو گزار لیں (ان کا رینالہ خورد میں ایک مرغی خانہ ہے)۔ میںوہاںگیا، بچے بھی ساتھ تھے۔ وہاں جا کر تو میری جان بڑی اذیت میں پھنس گئی۔ وہ اچھی سر سبز جگہ تھی۔ نہر کا کنارہ تھا، لیکن وہ جگہ میرے لئے زیادہ Comfortable ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ آسائشیںمیسر نہیں تھیں۔ ایک تو وہاںمکھیاںبہت تھیں، دوسرے مرغی خانے کے قریب ہی ایک اصطبل تھا، وہاںسے گھوڑوںکی بو آتی تھی۔ تیسرا وہاں پر مشکل یہ تھی کہ وہاں ایک چھوٹا فریج تھا، اس میں ضرورت کی تمام چیزیں نہیں رکھی جا سکتی تھیں اور بار بار بازار جانا پڑتا تھا۔یہ مجھے سخت ناگوار گزرتا تھا۔
اب دیکھئے خدا کی کیسے مہربانی ہوتی ہے۔ وہی مہربانی جس کا میں آپ سے اکثر ذکر کرتا ہوں۔ میں اصطبل میںیہ دیکھنے کے لئے گیا کہ اس کی بو کو روکنے کے لئے کسی دروازے کا بندوبست کیا جا سکے۔ وہاںجا کر کیا دیکھتا ہوں کہ میرے تینوں بچے گھوڑوںکو دیکھنے کے لئے اصطبل کے دروازوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ صبحجاگتے تھے تو سب سے پہلے آکر گھوڑوں کو دیکھتے۔ انہیں گھوڑوں کے ساتھ اتنا عشق ہو گیا تھا۔ ان میں ایک گھوڑا ایسا تھا جو بڑا اچھا تھا۔ وہ انہیں ہمیشہ ہنہنا کر ہنساتا تھا اور اگر وہ "ٹینے مینے" بچے وقت پر نہیں پہنچتے تھے، تو شاید انہیں بلاتا تھا، اس گھوڑے کی ہنہناہٹ سے یہ اندازہ ہوتا تھا۔ اب میں نے کہا کہ نہیں، یہ خوشبو یا بدبو، یہ اصطبل اور گھوڑے اور ان بچوں کی دوستی مجھے وارے میں ہے اور اب مجھے یہ گھوڑے پیارے ہیں۔ بس ایسے ٹھیک ہے۔
ہم شہر کے صفائی پسند لوگ جو مکھی کو گوارا نہیں کرتے۔ ایک بار میرے دفتر میں میرے بابا جی(سائیں جی) تشریف لائے، تو اس وقت میرے ہاتھ میںمکھیاں مارنے والا فلیپ تھا۔ مجھے اس وقت مکھی بہت تنگ کر رہی تھی۔ میںمکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لئے مجھے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک ان کی آواز سنائی دی۔ وہ کہنے لگے، یہ اللہ نے آپ کے ذوقٍ کشتن کے لئے پیدا کی ہے۔ میںنے کہا، جی یہ مکھی گند پھیلاتی ہے، اس لئے مار رہا تھا۔ کہنے لگے، یہ انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو۔ میں نے کہا، جی یہ مکھی کیسے محسن ہے؟ کہنے لگے، یہ بغیر کوئی کرایہ لئے، بغیر کوئی ٹیکس لئے انسان کو یہ بتانے آتی ہے کہ یہاںگند ہے۔ اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں، یہ خود بخود چلی جائے گی۔ سو، وہاں باباجی کی کہی ہوئی وہ بات میرے ذہن میںلوٹ کر آئی اور میںنے سوچا کہ مجھے اس کمرے میںکوئی فریش چیزیں پھول یا سپرے وغیرہ رکھنی چاہیں اور یہاںکی صفائی پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ فرش جیسا بھی تھا، اس کو گیلا کر کے میں نے جھاڑو لے کر خود خوب اچھی طرح سے صاف کیا۔ آپ یقین کریں پھر مجھے مکھیوں نے تنگ نہیں کیا۔
جب میں سودا لینے کے لئے(جس سے میں بہت گھبراتا ہوں) ایک میل کے فاصلے پر گیا، تو میں نے وہاں اپنے بچپن کے کئی سال گزارنے کے بعد لبساطیوں کی دکانیںدیکھیں، جو ہمارے بڑے شہروں میں نہیں ہوتیں۔ وہاں پر میںنے بڑی دیر بعد دھونکنی کے ساتھ برتن قلعی کرنے والا بندہ دیکھا، پھر عجیب بات، جس سے آپ سارے لوگ محروم ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ وہاں ایک کسان کا لڑکا دیکھا، جو گندم کے باریک "ناڑ" جو تقریباً چھ انچ لمبا تھا، اسے کاٹ کر اس کے ساتھ "الغوزہ" بجاتا تھا۔ وہ اتنا خوبصورت الغوزہ بجاتا تھا کہ اگر آپ اسے سننے لگیں، تو آپ بڑے بڑے استادوں کو بھول جائیں۔ پھر میںآرزو کرنے لگا کہ مجھے ہر شام بازار جانے کا موقع ملے۔ یہ چیزیںچھوٹی چھوٹی ہیں اور یہ بظاہر معمولی لگتی ہیں، لیکن ان کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے۔
اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دھیان دیں گے، اگر آپ اپنی "کنکری" کو بہت دور تک جھیل میں پھینکیں گے تو بہت بڑا دائرہ پیدا ہوگا، لیکن آپ کی یہ آرزو ہے کہ آپ کو بنا بنایا دائرہ کہیںسے مل جائے اور وہ آپ کی زندگی میں داخل ہو جائے، ایسا ہوتا نہیں ہے۔ قدرت کا ایک قانون ہے کہ جب تک آپ چھوٹی چیزوں پر، معمولی سی باتوں پر، جو آپ کی توجہ میں کبھی نہیں آئیں، اپنے بچے پر اور اپنی بھتیجی پر، آپ جب تک اس کی چھوٹی سی بات کو دیکھ کر خوش نہیںہوںگے، تو آپ کو دنیا کی کوئی چیز یا دولت خوشی عطا نہیںکر سکے گی، کیونکہ روپیہ آپ کوخوشی عطا نہیں کر سکتا۔ روپے پیسے سے آپ کوئی کیمرہ خرید لیں، خواتین کپڑے خرید لیں اور وہ یہ چیزیں خریدتی چلی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں خوشی عطا کریں گی۔ لیکن جب وہ چیز گھر میں آجاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت گھٹنا شروع ہو جاتی ہے۔
خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بھی نہیںکی ہوتی، تیار بھی نہیںہوئے ہوتے، لیکن وہ آجاتی ہے۔ گویا اس رُخ پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں، جو کہ بہت اچھی آرزو ہے، کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہیں کرے گا، جب تک وہ راستہ یا پگڈنڈی اختیار نہیںکرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ انسان یہ کوشش کرتا ضرور ہے، لیکن اس کی Methodology مختلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چیزوں سے بڑی کی طرف نہیں جاتا۔ آپ جب ایک بار یہ فن سیکھ جائیں گے، پھر آپ کو کسی بابے کا ایڈریس لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر وہ چھوٹی چیز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کی گائیڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر یقیناً لے جائے گی، جہاںجانے کے آپ آرزومند ہیں۔
سو، ایک بار کبھی چھوٹی چیز سے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کبھی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی یا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر یا کبھی اخبار میںخوفناک خبر پڑھ کر دعا مانگیں کہ یا اللہ! تو ایسی خبریں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پھاٹک کھلنا شروع ہوگا اور مجھے آپ کے چہروں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ یہ کوشش ضرور کریں گے۔
اللہ آپ کو بہت خوش رکھے۔ بہت آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین!!
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Zavia 2
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Zavia 2
ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔
زاویہ دوم، باب گیارہ سے اقتباس
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Hikmat Ki Batain
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Hikmat Ki Batain
ہمارے بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو شخض اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ "اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا بھلا کیسے ممکن ہے؟" تو جواب ملا کہ "انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکہ (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا) نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ "ٹیون اپ" ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ "ٹیون اپ" کر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ ملا لو"
بابا جی کا بیان ختم ہوا تو نوجوانوں کے گروہ نے ان کو گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے پوچھا " سر! ہمیں سمجھائیں کہ ہم کیسے اپنا دل خدا کے ساتھ "ٹیون اپ" کریں کیونکہ ہمیں یہ کام نہیں آتا؟" اشفاق صاحب نے اس بات کا بھی بے حد خوبصورت جواب دیا، فرمانے لگے"یار ایک بات تو بتاؤ، تم سب جوان لوگ ہو، جب تمہیں کوئی لڑکی پسند آ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ کیا اس وقت تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے؟ نہیں، اس وقت تمہیں سارے آئیڈیاز خود ہی سوجھتے ہیں، ان سب باتوں کے لئے تمہیں کسی گائڈینس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں تمہاری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا کی بات آتی ہے تو تمہیں وہاں رہنمائی بھی چاہئے اور تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ خدا کے ساتھ اپنے آپ کو" ٹیون اپ "کیسے کرنا ہے؟
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Ilm aur Danish
" لکھ لعنت ایسی مکھی تے جندیان تن ہزار اکھاں ہوون او جدوں وی بہندی ائے گندگی تے بہندی ائے "
Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Ilm aur Danish
میں نے تائے سے کہا تایا سن میں تمہیں ایک بڑے کام کی بات بتاتا ہوں - وہ بڑے تجسس سے میری طرف دیکھنے لگا - میں نے اسے بتایا کہ یہ جو مکھی ہوتی ہے اور جسے معمولی اور بہت حقیر خیال کیا جاتا ہے یہ دیکھنے اور بینائی کے معاملے مین تمام کیڑوں سے تیز ہوتی ہے کیونکہ اس کی آنکھوں میں تین ہزار محدب شیشے یا لینز لگے ہوتے ہیں اور یہ ہر زاویے سے دیکھ سکتی ہے - اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ جب بھی اور جس طریقے سے بھی اس پر حملہ آور ہوں ، یہ اڑ جاتی ہے - اور اللہ نے اسے یہ بہت بڑی اور نمایاں خصوصیت دی ہے - اب مین سمجھ رہا تھا کہ اس بات کا تائے پر بہت رعب پڑے گا
!کیونکہ میرے خیال میں یہ بڑے کمال کی بات تھی لیکن تایا کہنے لگا
" لکھ لعنت ایسی مکھی تے جندیان تن ہزار اکھاں ہوون او جدوں وی بہندی ائے گندگی تے بہندی ائے "
-ایسی مکھی پر لعنت بیشمار ہو جس کی تین ہزار آنکھین ہوں اور وہ جب بھی بیٹھے گندگی پر ہی بیٹھے
-خواتین و حضرات ! یہ بات ہے دانش کی - ایسی باتیں علم کے زمرے میں نہیں آتی ہیں
از اشفاق احمد زاویہ 3 فوک وزڈم صفحہ 94