Monday, June 25, 2012

قرآن پاک کوجلانے اور بےحرمتی کرنے والے امریکی فوجیوں کو معمولی سزا دینے کا فیصلہ

امریکی فوج کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے افغانستان میں قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کرنے کے واقعہ میں ملوث سات فوجیوں کو قصوروار قرار دے کر ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی سفارش کی ہے۔ایک امریکی عہدے دار نے بتایا ہے کہ افغانستان میں ایک فوجی اڈے پر فروری میں قرآن مجید کے نسخے نذرآتش کرنے اور اس کی توہین کے واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔لیکن اس تحقیقاتی رپورٹ میں چھے بری فوجیوں اور امریکی بحریہ کے ایک اہلکار کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم کرنے کی سفارش نہیں کی گئی بلکہ صرف انتظامی سزا دینے پر زوردیا گیا ہے۔فوری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں کتنے فوجی اور کتنے افسر ہیں اور یہ کہ یہ واقعہ کیونکر پیش آیا تھا۔
امریکی فوج نے واقعہ کی تحقیقات کے مکمل ہونے کی تصدیق کی ہے لیکن قصوروار فوجیوں کے خلاف انضباطی کارروائی کی نوعیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔امریکی فوج کے ترجمان جارج رائٹ نے کہا ہے کہ ابھی تحقیقاتی رپورٹ کا جائزہ نہیں لیا گیا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں بگرام کے اڈے پر امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن مجید کی بے حرمتی کا واقعہ 21 فروری کو پیش آیا تھا۔اس کے خلاف افغانستان کے علاوہ پڑوسی ممالک ایران اور پاکستان میں بھی امریکا کے خلاف پُرتشدد احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔افغانستان میں امریکا کے خلاف پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران دو امریکی فوجیوں سمیت چالیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔مذکورہ واقعہ کے فوری بعد ان دوامریکیوں کو کابل میں ایک افغان اہلکار نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
بگرام ائیربیس پرکوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے پر مامور افغان مزدوروں کو قرآن مجید کے جلے ہوئے نسخے ملے تھے اورجونہی اس کی خبر کابل پہنچی تو لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ تب امریکیوں نے کہا تھا کہ قرآن مجید کے جلائے گئے نسخے بگرام میں امریکی فوج کے زیرانتظام جیل سے باہر لائے گئے تھے۔وہاں قید افراد ان کی تلاوت کیا کرتے تھے لیکن ان کے ذریعے وہ ایک دوسرے کے ساتھ پیغام رسانی بھی کیا کرتے تھے اور اپنے پیغامات لکھ کر قرآن مجید میں رکھ دیتے تھے جس کے بعد ان کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔
امریکی صدر براک اوباما نے بہ ذات خود بگرام کے فوجی اڈے پر قرآن مجید کی بے حرمتی اور اس کے نسخے نذرآتش کرنے کے واقعہ پرافغان عوام کے شدید احتجاج کے بعد معافی مانگی تھی۔افغانستان میں امریکا کی قیادت میں نیٹو فوج کے کمانڈر جنرل جان ایلن نے بھی اس واقعہ پر معذرت کی تھی اور ان کا کا کہنا تھا کہ ''ہمارے لیے اس سنگین غلطی کو درست کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان قیادت کے ساتھ مل کر کام کریں اور اس طرح کی غلطی کا اعادہ نہ ہونے دیں''۔
طالبان مزاحمت کاروں نے اپنے ہم وطنوں پر زوردیا تھا کہ وہ قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعہ کے انتقام میں غیرملکی فوجیوں پر حملے کریں اور انھیں قتل کردیں۔طالبان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ''مسلمانوں کے جان ومال کا تحفظ کرنا تمام مسلمانوں کی ذمے داری ہے،اس لیے مظاہرین جارح فوجوں اور ان کی تنصیبات ہی کو ہدف بنائیں''۔
افغانستان کے سنئیرعلماء پر مشتمل کونسل نے بگرام کے اڈے پر قرآن مجید کی توہین اور اس کو جلانے کے واقعہ کی شدید مذمت کی تھی اور اس کے ذمے داروں کو سرعام سزا دینے کا مطالبہ کیا تھی۔کونسل کے ارکان سنئیر افغان علماء نے مطالبہ کیا تھا کہ ''اس سنگین جُرم پر معافی قبول نہیں کی جاسکتی ،جن امریکی فوجیوں نے اس سنگین جُرم کا ارتکاب کیا ہے،ان کے خلاف کھلے عام مقدمہ چلایا جائے اور انھیں سرعام سزا دی جائے''۔
افغانستان کے علاوہ امریکا کے بدنام زمانہ حراستی مرکز گوانتا ناموبے میں قائم عقوبت خانے میں ماضی میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب قرآن مجید کی توہین کے واقعات پیش آچکے ہیں اور ان کے خلاف افغان سخت احتجاج کرتے رہے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ مغربی فوجی جنگ زدہ ملک میں مذہبی اور ثقافتی حساسیت کا خیال رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی فوج کے زیرانتظام بگرام کے اڈے پر قائم عقوبت خانے میں افغانوں اور دوسرے ممالک کے قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے واقعات بھی منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کی تحقیقات کرنے والے افغان حکومت کے مقررکردہ کمیشن کا کہنا ہے کہ بگرام جیل میں قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان میں سے بیشتر کو کسی ثبوت کے بغیر قید رکھا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment