Sunday, June 17, 2012

One Ball in 40 Minutes..!!

یہ غالباً 1994 ء کا سیزن تھا۔ انگلینڈ کے دورے کے دوران ہم ایک فرسٹ کلاس میچ کھیل رہے تھے۔ اس مقابلے کے دوران ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ہماری ٹیم کے ایک گیندباز ایک اوور کے دوران جیسے ہی امپائر کے قریب گزرے اور گیند بلے باز کی جانب پھینکی، تو بجائے وہ بلے باز کی جانب جانے کے ایک لمحے کے لیے جیسے غائب ہو گئی، امپائراور ہم سب حیران رہ گئے لیکن دوسرے لمحے سب کو احساس ہوا کہ دراصل گیند باؤلر کے ہاتھ سے اتفاقاً چھوٹ گئی تھی اور کسی طرح عین پچ کے وسط میں رک گئی۔

امپائر نے صورتحال کو سمجھنے کے بعد 'ڈیڈ بال' کا اشارہ کردیا۔ لیکن باؤلر جیسے ہی آگے بڑھ کر گیند اٹھانے لگا تو بلے باز نے اسے روک دیا اور امپائر سے احتجاج کیا کہ چونکہ گیند باز نے مکمل باؤلنگ ایکشن کے بعد گیند پھینکی ہے اس لیے یہ گیند ابھی تک ڈیڈ نہیں ہوئی ہے۔ لیکن امپائر نے اس احتجاج کو رد کردیا اور مصر رہے کہ یہ گیند ڈیڈ ہوچکی ہے۔بلے باز کا دعویٰ پر بھی قائم رہا۔ معاملہ طول پکڑنے لگا تو امپائرز کھیل روک کر پویلین آگئے تاکہ کرکٹ قوانین سے رجوع کر سکیں۔ اس دوران گیند وہیں پچ کے وسط میں پڑی رہی۔
پویلین پہنچ کر امپائروں نے کرکٹ قوانین کی کتابیں کھنگالیں تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ بلے باز کا دعویٰ بجا تھا ۔ کرکٹ قانون کے مطابق وہ گیند ابھی تک 'لائیو' تھی۔خیرجناب، جب امپائرز نے کھیل دوبارہ وہیں سے شروع کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت تک 40 منٹ ضائع ہوچکے تھے۔ تمام فیلڈرز اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے ہوگئے اور بلے باز کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ جس طرف چاہے اور جیسے چاہے گیند کو ہٹ مارے۔ بلے باز نے للچائی ہوئی نظروں سے گیند کو دیکھا اور ایک سمت کا انتخاب کرتے ہوئے زبردست انداز سے بلا گھمایا، لیکن 'لالچ بری بلا ہے' کے مصداق بلا گیند کے اوپر سے ہی گزر گیا۔ وہ گیندکو بہت زورسے مارنے کی کوشش میں اپنا نشانہ خطا کرگئے۔ اس وقت بلے باز کی حالت دیدنی تھی، افسوس اور اس سے بھی زیادہ شرمندگی کی وجہ سے وہ کھسیانے انداز میں آہستہ آہستہ کریز کی جانب بڑھنے لگے۔ جب میں (یعنی سچن تنڈولکر) نے یہ دیکھا کہ بلے باز سست روی سے کریز کی جانب جارہا ہے تو لپک کر گیند اٹھائی اور وکٹوں پر مار دی۔ میں نے امپائر سے اپیل کی ۔ امپائر نے اپنے ساتھی سے مشورہ اور سوچ بچار کے بعد اسے آؤٹ دے دیا۔ کیونکہ کرکٹ قوانین کے رو سے وہ گیند ابھی تک 'لائیو' تھی۔ بلے باز اپنی حجت اور بے وقوفی کی وجہ سے بے حد شرمندہ ہوا اور سر جھکا کر پویلین کی جانب چل دیا۔
اس واقعے کا سب سے دلچسپ امر یہی ہے کہ ایک گیند باز کے ہاتھ سےپھینکی جانے والی گیند چالیس منٹ تک 'لائیو' رہی، اور یہ کرکٹ کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ثابت ہوا کہ ایک بلے باز وکٹ کیپر کے بجائے ایک فیلڈر کے ہاتھوں سٹمپ آؤٹ ہوا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرکٹ میں 'بیٹ کیری' کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ پوری ٹیم آؤٹ ہونے کے باوجود اوپنر کی حیثیت سے جانے والا بلے باز ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ ایک روزہ کرکٹ کی دہائیوں پر مشتمل تاریخ میں صرف 9 اوپننگ بلے باز ایسے ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہ ناقابل شکست واپس آئے ہوں اور ان میں تازہ اضافہ پاکستان کے اظہر علی کا ہے جنہوں نے اپنے مختصر سے کیریئر میں یہ کارنامہ بھی انجام دے ڈالا۔
سری لنکا کے خلاف کولمبو کے پریماداسا اسٹیڈیم میں ہونے والے سیریز کو چوتھے ایک روزہ مقابلے میں پاکستان 244 رنز کا ہدف ملا تو میدان میں اترا تو اظہر علی اپنے ساتھی محمد حفیظ کے ساتھ اوپنر کی حیثیت سے میدان میں اترے اور ایک مضبوط پوزیشن پر پہنچنے کے باوجود پاکستان کا ایک اینڈ مکمل طور پر حریف گیند بازوں کے رحم و کرم پر رہا جبکہ دوسرے اینڈ سے اظہر علی اپنی ٹانگ میں تکلیف کے باوجود ڈٹے رہے یہاں تک کہ 45 اوورز میں پوری ٹیم 199 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور اظہر علی 81 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔
اظہر علی عظیم اوپنر سعید انور کے بعد دوسرے پاکستانی بلے باز ہیں جنہوں نے 'بیٹ کیری' کیا ہے اور ویسے بھی یہ 11 سال بعد ایک روزہ کرکٹ میں بیٹ کیری کرنے کا پہلا موقع رہا۔ آخری مرتبہ اپریل 2001ء میں بنگلہ دیش کے جاوید عمر نے زمبابوے کے خلاف بیٹ کیری کیا تھا۔
ایک روزہ کرکٹ میں پہلی بار یہ اعزاز زمبابوے کے گرانٹ فلاور نے دسمبر 1994ء میں سڈنی کے تاریخی میدان پر انگلستان کے خلاف حاصل کیا تھا۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے پہلی بار فروری 1995ء میں سعید انور نے زمبابوے کے خلاف ہرارے میں بیٹ کیری کیا تھا۔

 

No comments:

Post a Comment