Monday, June 25, 2012

یوٹیوب نے پاکستانی سیاستدانوں کی مضحکہ خیز ویڈیوز ہٹانے سے معذرت کرلی

گوکل کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانےو الی رپورٹ مین کہا گیا ہے کہ کہ گوکل مکمل ٹرانسپیرنسی کے ساتھ کام کرتا ہے اور صرف کاپی رائٹ وغیرہ کے مسائل سامنے آنے کے بعد ہی گوگل یا یو ٹیوب کی جانب سے کسی ویڈیو، تصویر یا مواد کو ہٹایاجاتا ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل ملک ریاض کے لیک ہونےو الے انٹرویوز کی ویڈیوز کو یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے ہٹادیا گیا ہے اور اس سلسلے میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو کاپی رائٹ کےمسئلے کی وجہ سے ہٹائی گئی ہے اور اس سلسلے میں دنیا نیوز کی جانب سے باقاعدہ درخواست کی گئی تھی۔مذکورہ ویڈیوز کو سرچ کرنے کے بعد یوٹیوب پر بھی یہی پیغام دیاجاتا ہے کہ دنیا نیوز کی جانب سے کاپی رائٹ کے دعوے کے بعد مذکورہ ویڈیوز کو ہٹادیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بعض ماہرین نے گوگل پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں اس کی جانب سے پاکستانی حکومت کی خصوصی درخواست پر عمل کیا ہے کیونکہ مذکورہ ویڈیوز میں کہیں بھی دنیا نیوز کا لوگو یا کوئی ایسی شناخت موجود نہیں تھی جس کے ذریعے اس بات کا واضح ثبوت دیاجاسکتا ہے کہ مذکورہ ویڈیوز دنیا نیوز کی ملکیت کے تحت آتی ہیں۔مذکورہ ویڈیوز پر یوٹیوب کی جانب سے خلاف ضابطہ پابندی لگائی گئی ہے۔
یوٹیوب کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ انہوں نے پالیسی کے خلاف مذکورہ ویڈیوز کو یوٹیوب سے ہٹایا تھا۔گوگل کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے کمپنی سے یو ٹیوب سے پاکستانی سیاست دانوں اور فوج کے بارے میں 
طنزیہ ویڈیوز ہٹانے کو کہا تھا۔لیکن گوگل نے اس کے باوجود حکومتِ پاکستان کی اس درخواست کو رد کردیا تھا کیونکہ متعلقہ ویڈیوز نہ تو کاپی رائٹ کے مسئلے کے تحت آتی تھیں اور نہ ہی ان ویڈیوز کی جانب سے کسی قسم کی دہشت گردی، مذہبی جذبات کو ٹھیس و غیرہ پہنچ سکتی تھی۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے گوگل سے درخواست کی تھی کہ چھ ایسی ویڈیوز ہٹائی جائیں جن میں پاکستانی سیاست دانوں اور فوج کو طنز کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن گوگل کی جانب سے یہ ویڈیوز ہٹانے سے معذرت کرلی گئ تھی۔رپورٹ کے مطابق گوگل نے پاکستان کے علاوہ ہسپانوی حکومت کی بھی دو سو ستر ایسے 'سرچ' نتائج کو ہٹانے کی درخواست رد کر دی تھی جو صارفین کو شہروں کے میئر حضرات اور سرکاری وکلاء سمیت عوامی شخصیات کے بارے میں لکھے گئے بلاگز اور مضامین پر لے جاتے تھے.اس کے علاوہ کینیڈین پاسپورٹ آفس کی درخواست بھی مسترد کی گئی جس میں اس ویڈیو کو اس لیے ہٹانے کے لیے کہا گیا تھا جس میں ایک شخص پاسپورٹ پر پیشاب کر کے اسے کموڈ میں بہا دیتا ہے۔گوگل کے سینیئر پالیسی تجزیہ کار ڈورتھی چو کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کو سیاسی آراء کے سلسلے میں موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد پر تشویش ہے۔ان کے مطابق 'یہ صرف اس لیے خطرے کی گھنٹی نہیں کہ آزادی اظہار خطرے میں ہے بلکہ اس لیے بھی ان میں سے کچھ درخواستیں ایسے ممالک سے آئی ہیں جن پر آپ شک بھی نہیں کرتے یعنی ایسی مغربی جمہوریتیں جہاں عموماً سنسر شپ کی بات نہیں ہوتی'۔
ڈورتھی چو کا کہنا ہے کہ یہ صرف اس لیے خطرے کی گھنٹی نہیں کہ آزادی اظہار خطرے میں ہے بلکہ اس لیے بھی ان میں سے کچھ درخواستیں ایسے ممالک سے آئی ہیں جن پر آپ شک بھی نہیں کرتے یعنی ایسی مغربی جمہوریتیں جہاں عموماً سنسر شپ کی بات نہیں ہوتی۔رپورٹ میں گوگل نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس نے برطانوی پولیس ایسوسی ایشن کی درخواست پر یو ٹیوب سے چھ سو چالیس ایسی ویڈیوز ہٹا دی ہیں جو مبینہ طور پر دہشت گردی کو فروغ دیتی تھیں۔
یہ ویڈیوز سنہ دو ہزار گیارہ میں ہٹائی گئی تھیں اور گوگل کا کہنا ہے کہ برطانوی چیف پولیس آفیسرز کی ایسوسی ایشن کی درخواست پر گوگل نے پانچ ایسے اکاؤنٹ بھی بند کردیے جن کا تعلق ان مشتبہ ویڈیوز سے تھا۔گوگل کے بقول اس کو جولائی سنہ دو ہزار گیارہ سے دسمبر تک 461 عدالتی احکامات موصول ہوئے جن کا تعلق 6989 ویڈیوز سے تھا۔گوگل کے مطابق ان میں سے 68 فیصد احکامات کی تعمیل کی گئی۔

کمپنی کے مطابق ان احکامات کے علاوہ ان کو 546 غیر رسمی درخواستیں بھی موصول ہوئیں جن میں سے 43 فیصد کو مانا گیا۔

No comments:

Post a Comment