Tuesday, June 26, 2012

خون کا عطیہ دینے سے آپ کی جان بھی جا سکتی ہے

خون زندگی کی علامت اور حرارت ہے۔ نہ اس کی فصل کاشت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی فیکٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں سالانہ 26لاکھ خون کی بوتل کی ضرورت ہوتی ہے،جب کہ سالانہ16لاکھ خون کی بوتلیں جمع ہوپاتی ہیں۔ پاکستان میں عطیہ خون کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے جب بھی کوئی حادثہ یا کسی مرض میں خون کی ضرورت پیش آتی ہے تو مریض کے لواحقین کو انتہائی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر پاکستان میں دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح عطیہ خون کی رجحان کو فروغ دیا جائے تو یہ صورت حال نہ ہو۔ہمارے معاشرے میں خون عطیہ کرنے کے حوالے سے چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں،مثلاًخون دینے کے نتیجے میں خون کی کمی ہونا،کمزوری ہونا،بے جا اور بے بنیاد وہم اور خوف جب کہ عطیہ خون کے حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ
۔۔ہر انسان کے جسم میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے۔
۔۔ہر تندرست فرد ، ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیے میں دے سکتا ہے۔ 
۔۔جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے،اور ہار ٹ اٹیک کے حملے کا امکان کم سے کم ہوجاتا ہے ۔
۔۔تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آ جاتا ہے ،نیا خون بننے کے ساتھ ساتھجسم میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔
۔۔جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ہی ذہنی و جسمانی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے۔
ذیل میں ایسی شرائط بتائی جا رہی ہیں جن پر پورا اترنے والا شخص ہی خون عطیہ کر نے کا اہل ہے۔لیکن ان شرائط کا خیال نہ رکھتے ہوئے کسی کمزور شخص نے خون عطیہ کرنا چاہا تو اس میں اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ 

ڈونر کا انتخاب:
۔۔ڈونر کی عمر کم از کم اٹھارہ سال ہو۔

۔۔ڈونر کا وزن کم از کم 50 کلو گرام ہو۔

۔۔اسے گزرے دو سال کے عرصے میں یرقان نہ ہوا ہو۔ پیدائشی یرقان اس سے مستثنیٰ ہے۔

۔۔گذشتہ ایک سال میں ملیریا نہ ہوا ہو۔

۔۔دل کی بیماری، بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ نہ ہو۔

۔۔گذشتہ ایک سال میں خون نہ لگا ہو۔

۔۔اگر میجر سرجری ہوئی ہو تو اسے کم از کم ایک سال گزر چکا ہو۔

۔۔اگر اس سے پہلے خون دیا ہو تو دوبارہ خون دیتے وقت کم از کم 3 ماہ کا وقفہ رکھا جائے۔

۔۔خون کی کمی نہ ہو۔ ہمیو گلوبن کی مقدار 12.5 ہو۔

۔۔خون دیتے وقت بخار یا کسی قسم کا کوئی انفیکشن نہ ہو۔

۔۔بغیر کچھ کھائے خون نہ دیا جائے۔

۔۔ڈونر کوئی دوا لے رہا ہو تو اس کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرے۔

۔۔نشہ آور ادویات استعمال نہ کرتا ہو۔

ان تمام باتوں کی تسلی کر لینے کے بعد ڈونر سے خون لے لیا جاتا ہے جس کی مقدار تقریباً 450 ملی لیٹر ہوتی ہے۔ایک صحت مندشخص میں تقریبا ً5لیٹر خون موجود ہوتاہے،جس بیگ میں خون لیا جاتاہے،اس میں خون کی مقدار450 ملی لیٹر اور انٹیکوگولینٹ کی مقدار63 ملی لیٹر ہوتی ہے۔ انٹیکوگولینٹ وہ کیمیکل ہے جو خون کو جمنے سے بچاتا ہے اور اس کے خلیات کو زندہ رہنے کے لئے بنیادی غذا فراہم کرتا ہے۔ ڈونرسے خون حاصل کرنے بعد مختلف بیماریوں کے لئے اس خون کی اسکریننگ کی جاتی ہے مثلا:----- ایچ آئی وی(ایڈز)----- ہیپاٹائٹس بی،----- ہیپاٹائٹس سی،----- سائپلس ،----- ملیریا اور دیگر منتقل ہونے والی بیماریاں۔

خون کے اجزا:
خون کے مختلف اجزا کو الگ الگ کر لیا جاتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں
----- خون کے سرخ خلیات (Packed Red Cells) 
----- پلیٹیلیٹس (Platelets)
----- پلازما (Plasma) 
----- فیکٹرز (factor concentartes) مثلاًفیکٹر VIII، فیکٹر IX وغیرہ
مکمل خون کی منتقلی کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اب مریض کو خون کا وہی جز دیا جاتا کہ جس کی اسے ضرورت ہو۔ بہت کم صورتوں میں مریض کو مکمل خون لگایا جاتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک بوتل خون کے عطیے سے تین انسانی جانوں کو بچایا جا سکتاہے۔

 

No comments:

Post a Comment